Afleveringen
-
Feel free to share your opinions with me at [email protected]
nazm:
تم پریشان نہ ہو، باب کرم وا نہ کرو
اور کچھ دیر پکاروں گا چلا جاؤں گا
اسی کوچے میں جہاں چاند اگا کرتے ہیں
شب تاریک گزاروں گا، چلا جاؤں گا
راستہ بھول گیا، یا یہی منزل ہے مری
کوئی لایا ہے کہ خود آیا ہوں معلوم نہیں
کہتے ہیں حسن کی نظریں بھی حسیں ہوتی ہیں
میں بھی کچھ لایا ہوں، کیا لایا ہوں معلوم نہیں
یوں تو جو کچھ تھا مرے پاس میں سب بیچ آیا
کہیں انعام ملا، اور کہیں قیمت بھی نہیں
کچھ تمہارے لیے آنکھوں میں چھپا رکھا ہے
دیکھ لو اور نہ دیکھو تو شکایت بھی نہیں
ایک تو اتنی حسیں دوسرے یہ آرائش
جو نظر پڑتی ہے چہرے پہ ٹھہر جاتی ہے
مسکرا دیتی ہو رسماً بھی اگر محفل میں
اک دھنک ٹوٹ کے سینوں میں بکھر جاتی ہے
گرم بوسوں سے تراشا ہوا نازک پیکر
جس کی اک آنچ سے ہر روح پگھل جاتی ہے
میں نے سوچا ہے کہ سب سوچتے ہوں گے شاید
پیاس اس طرح بھی کیا سانچے میں ڈھل جاتی ہے
کیا کمی ہے جو کرو گی مرا نذرانہ قبول
چاہنے والے بہت، چاہ کے افسانے بہت
ایک ہی رات سہی گرمیٔ ہنگامۂ عشق
ایک ہی رات میں جل مرتے ہیں پروانے بہت
پھر بھی اک رات میں سو طرح کے موڑ آتے ہیں
کاش تم کو کبھی تنہائی کا احساس نہ ہو
کاش ایسا نہ ہو گھیرے رہے دنیا تم کو
اور اس طرح کہ جس طرح کوئی پاس نہ ہو
آج کی رات جو میری ہی طرح تنہا ہے
میں کسی طرح گزاروں گا چلا جاؤں گا
تم پریشان نہ ہو، باب کرم وا نہ کرو
اور کچھ دیر پکاروں گا چلا جاؤں گا
-
Sab Maaya Hai by Ibn e Insha:
سب مایا ہے، سب ڈھلتی پھرتی چھایا ہے
اس عشق میں ہم نے جو کھویا جو پایا ہے
جو تم نے کہا ہے، فیضؔ نے جو فرمایا ہے
سب مایا ہے
ہاں گاہے گاہے دید کی دولت ہاتھ آئی
یا ایک وہ لذت نام ہے جس کا رسوائی
بس اس کے سوا تو جو بھی ثواب کمایا ہے
سب مایا ہے
اک نام تو باقی رہتا ہے، گر جان نہیں
جب دیکھ لیا اس سودے میں نقصان نہیں
تب شمع پہ دینے جان پتنگا آیا ہے
سب مایا ہے
معلوم ہمیں سب قیس میاں کا قصہ بھی
سب ایک سے ہیں، یہ رانجھا بھی یہ انشاؔ بھی
فرہاد بھی جو اک نہر سی کھود کے لایا ہے
سب مایا ہے
کیوں درد کے نامے لکھتے لکھتے رات کرو
جس سات سمندر پار کی نار کی بات کرو
اس نار سے کوئی ایک نے دھوکا کھایا ہے؟
سبب مایا ہے
جس گوری پر ہم ایک غزل ہر شام لکھیں
تم جانتے ہو ہم کیوں کر اس کا نام لکھیں
دل اس کی بھی چوکھٹ چوم کے واپس آیا ہے
سب مایا ہے
وہ لڑکی بھی جو چاند نگر کی رانی تھی
وہ جس کی الھڑ آنکھوں میں حیرانی تھی
آج اس نے بھی پیغام یہی بھجوایا ہے
سب مایا ہے
جو لوگ ابھی تک نام وفا کا لیتے ہیں
وہ جان کے دھوکے کھاتے، دھوکے دیتے ہیں
ہاں ٹھوک بجا کر ہم نے حکم لگایا ہے
سب مایا ہے
جب دیکھ لیا ہر شخص یہاں ہرجائی ہے
اس شہر سے دور اک کٹیا ہم نے بنائی ہے
اور اس کٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے
سب مایا ہے
-
Zijn er afleveringen die ontbreken?
-
اجل، ان سے مل،
کہ یہ سادہ دل
نہ اہل صلوٰۃ اور نہ اہل شراب،
نہ اہل ادب اور نہ اہل حساب،
نا اہل کتاب
نہ اہل کتاب اور نہ اہل مشین
نہ اہل خلا اور نہ اہل زمین
فقط بے یقین
اجل، ان سے مت کر حجاب
اجل، ان سے مل!
بڑھو، تم بھی آگے بڑھو
اجل سے ملو،
بڑھو، نو تونگر گداؤ
نہ کشکول دریوزہ گردی چھپاؤ
تمہیں زندگی سے کوئی ربط باقی نہیں
اجل سے ہنسو اور اجل کو ہنساؤ!
بڑھو بندگان زمانہ بڑھو بندگان درم
اجل یہ سب انسان منفی ہیں
منفی زیادہ ہیں انسان کم
ہو ان پر نگاہ کرم
-
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
ایک میلے میں پہنچا ہمکتا ہوا
جی مچلتا تھا ایک ایک شے پر
جیب خالی تھی کچھ مول لے نہ سکا
لوٹ آیا لیے حسرتیں سینکڑوں
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
خیر محرومیوں کے وہ دن تو گئے
آج میلہ لگا ہے اسی شان سے
آج چاہوں تو اک اک دکاں مول لوں
آج چاہوں تو سارا جہاں مول لوں
نارسائی کا اب جی میں دھڑکا کہاں
پر وہ چھوٹا سا الھڑ سا لڑکا کہاں
-
نظم:
ہو نہیں سکتا تری اس ''خوش مذاقی'' کا جواب
شام کا دل کش سماں اور تیرے ہاتھوں میں کتاب
رکھ بھی دے اب اس کتاب خشک کو بالائے طاق
اڑ رہا ہے رنگ و بو کی بزم میں تیرا مذاق
چھپ رہا ہے پردۂ مغرب میں مہر زر فشاں
دید کے قابل ہیں بادل میں شفق کی سرخیاں
موجزن جوئے شفق ہے اس طرح زیر سحاب
جس طرح رنگین شیشوں میں جھلکتی ہے شراب
اک نگارش آتشیں ہر شے پہ ہے چھایا ہوا
جیسے عارض پر عروس نو کے ہو رنگ حیا
شانۂ گیتی پہ لہرانے کو ہیں گیسوئے شب
آسماں میں منعقد ہونے کو ہے بزم طرب
اڑ رہے ہیں جستجو میں آشیانوں کے طیور
آ چلا ہے آئنے میں چاند کے ہلکا سا نور
دیکھ کر یہ شام کے نظارہ ہائے دل نشیں
کیا ترے دل میں ذرا بھی گدگدی ہوتی نہیں
کیا تری نظروں میں یہ رنگینیاں بھاتی نہیں
کیا ہوائے سرد تیرے دل کو تڑپاتی نہیں
کیا نہیں ہوتی تجھے محسوس مجھ کو سچ بتا
تیز جھونکوں میں ہوا کے گنگنانے کی صدا
سبزہ و گل دیکھ کر تجھ کو خوشی ہوتی نہیں
اف ترے احساس میں اتنی بھی رنگینی نہیں
حسن فطرت کی لطافت کا جو تو قائل نہیں
میں یہ کہتا ہوں تجھے جینے کا حق حاصل نہیں
-
Aadab! Intezaar ka bohat shukriya. Hazir hu ik nayi nazm ke saath.
-
آ کہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا
آشنا ہیں ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں گزرے ہیں جن سے اسی رعنائی کے
جس کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے
تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ برسا ہے اسی بام سے مہتاب کا نور
جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی وہ رخسار وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے
ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غم الفت کے
اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جز ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں
عاجزی سیکھی غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے
جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے
اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے سو جاتے ہیں
نا توانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عقاب
بازو تولے ہوئے منڈلاتے ہوئے آتے ہیں
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے -
اپنے بستر پہ بہت دیر سے میں نیم دراز
سوچتی تھی کہ وہ اس وقت کہاں پر ہوگا
میں یہاں ہوں مگر اس کوچۂ رنگ و بو میں
روز کی طرح سے وہ آج بھی آیا ہوگا
اور جب اس نے وہاں مجھ کو نہ پایا ہوگا!؟
آپ کو علم ہے وہ آج نہیں آئی ہیں؟
میری ہر دوست سے اس نے یہی پوچھا ہوگا
کیوں نہیں آئی وہ کیا بات ہوئی ہے آخر
خود سے اس بات پہ سو بار وہ الجھا ہوگا
کل وہ آئے گی تو میں اس سے نہیں بولوں گا
آپ ہی آپ کئی بار وہ روٹھا ہوگا
وہ نہیں ہے تو بلندی کا سفر کتنا - کٹھن
سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس نے یہ سوچا ہوگا
راہداری میں ہرے لان میں پھولوں کے قریب
اس نے ہر سمت مجھے آن کے ڈھونڈا ہوگا
نام بھولے سے جو میرا کہیں آیا ہوگا
غیر محسوس طریقے سے وہ چونکا ہوگا
ایک جملے کو کئی بار سنایا ہوگا
بات کرتے ہوئے سو بار وہ بھولا ہوگا
یہ جو لڑکی نئی آئی ہے کہیں وہ تو نہیں
اس نے ہر چہرہ یہی سوچ کے دیکھا ہوگا
جان محفل ہے مگر آج فقط میرے بغیر
ہائے کس درجہ وہی بزم میں تنہا ہوگا
کبھی سناٹوں سے وحشت جو ہوئی ہوگی اسے
اس نے بے ساختہ پھر مجھ کو پکارا ہوگا
چلتے چلتے کوئی مانوس سی آہٹ پا کر
دوستوں کو بھی کس عذر سے روکا ہوگا
یاد کر کے مجھے نم ہو گئی ہوں گی پلکیں
''آنکھ میں پڑ گیا کچھ'' کہہ کے یہ ٹالا ہوگا
اور گھبرا کے کتابوں میں جو لی ہوگی پناہ
ہر سطر میں مرا چہرہ ابھر آیا ہوگا
جب ملی ہوگی اسے میری علالت کی خبر
اس نے آہستہ سے دیوار کو تھاما ہوگا
سوچ کر یہ کہ بہل جائے پریشانی دل
یوں ہی بے وجہ کسی شخص کو روکا ہوگا!
اتفاقاً مجھے اس شام مری دوست ملی
میں نے پوچھا کہ سنو آئے تھے وہ؟ کیسے تھے؟
مجھ کو پوچھا تھا - مجھے ڈھونڈا تھا چاروں جانب؟
اس نے اک لمحے کو دیکھا مجھے - اور پھر ہنس دی
اس ہنسی میں تو وہ تلخی تھی کہ اس سے آگے
کیا کہا اس نے مجھے یاد نہیں ہے لیکن
اتنا معلوم ہے خوابوں کا بھرم ٹوٹ گیا -
یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہ دولت کے بھوکے رواجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
ہر اک جسم گھائل ہر اک روح پیاسی
نگاہوں میں الجھن دلوں میں اداسی
یہ دنیا ہے یا عالم بد حواسی
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
یہاں اک کھلونا ہے انساں کی ہستی
یہ بستی ہے مردہ پرستوں کی بستی
یہاں پر تو جیون سے ہے موت سستی
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
جوانی بھٹکتی ہے بد کار بن کر
جواں جسم سجتے ہیں بازار بن کر
یہاں پیار ہوتا ہے بیوپار بن کر
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
یہ دنیا جہاں آدمی کچھ نہیں ہے
وفا کچھ نہیں دوستی کچھ نہیں ہے
جہاں پیار کی قدر ہی کچھ نہیں ہے
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
جلا دو اسے پھونک ڈالو یہ دنیا
مرے سامنے سے ہٹا لو یہ دنیا
تمہاری ہے تم ہی سنبھالو یہ دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے -
مجھ سے پہلے تجھے جس شخص نے چاہا اس نے
شاید اب بھی ترا غم دل سے لگا رکھا ہو
ایک بے نام سی امید پہ اب بھی شاید
اپنے خوابوں کے جزیروں کو سجا رکھا ہو -
میں وہ شجر تھا
کہ میرے سائے میں بیٹھنے اور شاخوں پہ جھولنے کی ہزاروں جسموں کو آرزو تھی
زمیں کی آنکھیں درازیٔ عمر کی دعاؤں میں رو رہی تھیں
اور سورج کے ہاتھ تھکتے نہیں تھے مجھ کو سنوارنے میں
کہ میں اک آواز کا سفر تھا
عجب شجر تھا
کہ اس مسافر کا منتظر تھا
جو میرے سائے میں آ کے بیٹھے تو پھر نہ اٹھے
جو میری شاخوں پہ آئے جھولے تو سارے موسم یہیں گزارے
مگر وہ پاگل ہوا کا جھونکا مگر وہ پاگل ہوا کا جھونکا
عجب مسافر تھا رہ گزر کا
جو چھوڑ آیا تھا کتنی شاخیں
مگر لگا یوں کہ جیسے اب وہ شکستہ تر ہے
وہ میرے خوابوں کا ہم سفر ہے
سو میں نے سائے بچھا دئیے تھے
تمام جھولے ہلا دئیے تھے
مگر وہ پاگل ہوا کا جھونکا مگر وہ پاگل ہوا کا جھونکا
عجب مسافر تھا رہ گزر تھا
کہ لمحے بھر میں گزر چکا تھا
میں بے نمو اور بے ثمر تھا
مگر میں آواز کا سفر تھا
سو میری آواز کا اجر تھا
عجب شجر تھا
عجب شجر ہوں
کہ آنے والے سہ کہہ رہا ہوں
اے میرے دل میں اترنے والے
اے مجھ کو شاداب کرنے والے
تجھے مری روشنی مبارک
تجھے مری زندگی مبارک -
کس طرح آئے گی جس روز قضا آئے گی
شاید اس طرح کہ جس طور کبھی اول شب
بے طلب پہلے پہل مرحمت بوسۂ لب
جس سے کھلنے لگیں ہر سمت طلسمات کے در
اور کہیں دور سے انجان گلابوں کی بہار
یک بیک سینۂ مہتاب کو تڑپانے لگے
شاید اس طرح کہ جس طور کبھی آخر شب
نیم وا کلیوں سے سر سبز سحر
یک بیک حجرۂ محبوب میں لہرانے لگے
اور خاموش دریچوں سے بہ ہنگام رحیل
جھنجھناتے ہوئے تاروں کی صدا آنے لگے
کس طرح آئے گی جس روز قضا آئے گی
شاید اس طرح کہ جس طور تہہ نوک سناں
کوئی رگ واہمۂ درد سے چلانے لگے
اور قزاق سناں دست کا دھندلا سایہ
از کراں تا بہ کراں دہر پہ منڈلانے لگے
جس طرح آئے گی جس روز قضا آئے گی
خواہ قاتل کی طرح آئے کہ محبوب صفت
دل سے بس ہوگی یہی حرف وداع کی صورت
للہ الحمد بہ انجام دل دل زدگاں
کلمۂ شکر بہ نام لب شیریں دہناں -
مری زندگی کی لکھی ہوئی
مرے طاق دل پہ سجی ہوئی
وہ کتاب اب بھی ہے منتظر
جسے میں کبھی نہیں پڑھ سکی
وہ تمام باب سبھی ورق
ہیں ابھی تلک بھی جڑے ہوئے
مرا عہد دید بھی آج تک
انہیں وہ جدائی نہ دے سکا
جو ہر اک کتاب کی روح ہے
مجھے خوف ہے کہ کتاب میں
مرے روز و شب کی اذیتیں
وہ ندامتیں وہ ملامتیں
کسی حاشیے پہ رقم نہ ہوں
میں فریب خوردۂ برتری
میں اسیر حلقۂ بزدلی
وہ کتاب کیسے پڑھوں گی میں؟ -
ہر شے مسافر ہر چیز راہی
کیا چاند تارے کیا مرغ و ماہی
تو مرد میداں تو میر لشکر
نوری حضوری تیرے سپاہی
کچھ قدر اپنی تو نے نہ جانی
یہ بے سوادی یہ کم نگاہی
دنیائے دوں کی کب تک غلامی
یا راہبی کر یا پادشاہی
پیر حرم کو دیکھا ہے میں نے
کردار بے سوز گفتار واہی -
کیسی ہے یہ رسم تاؤ کیا ہے یہ آدرش مان کی خاطر جان گنوائی دل کی خاطر پریت رات کی خاطر صبح بنائی ہار کی خاطر جیت چاند کی خاطر شہر بناۓ دشت کی خاطر قہر آنکھ کی خاطر اشک بناۓ جام کی خاطر ز ہر جسم کی خاطر فرش بنایا روح کی خاطر عرش گرد کی خاطر راہ بنائی راہ کی خاطر خار بوجھو تو پاگل کا سپنا سمجھو تو سنسار
-
دواؤں کی المایوں سے سجی اک دکاں میں
مریضوں کے انبوہ میں مضمحل سا
اک انساں کھڑا ہے
جو اک نیلی کبڑی سی شیشی کے سینے پہ لکھے ہوئے
ایک اک حرف کو غور سے پڑھ رہا ہے
مگر اس پہ تو ''زہر'' لکھا ہوا ہے
اس انسان کو کیا مرض ہے
یہ کیسی دوا ہے؟ -
کل ہم نے سپنا دیکھا ہے
جو اپنا ہو نہیں سکتا ہے
اس شخص کو اپنا دیکھا ہے
وہ شخص کہ جس کی خاطر ہم
اس دیس پھریں اس دیس پھریں
جوگی کا بنا کر بھیس پھریں
چاہت کے نرالے گیت لکھیں
جی موہنے والے گیت لکھیں
دھرتی کے مہکتے باغوں سے
کلیوں کی جھولی بھر لائیں
امبر کے سجیلے منڈل سے
تاروں کی ڈولی بھر لائیں
ہاں کس کے لیے سب اس کے لیے
وہ جس کے لب پر ٹیسو ہیں
وہ جس کے نیناں آہو ہیں
جو خار بھی ہے اور خوشبو بھی
جو درد بھی ہے اور دارو بھی
وہ الہڑ سی وہ چنچل سی
وہ شاعر سی وہ پاگل سی
لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں
ہم نام نہ اس کا بتلائیں
اے دیکھنے والو تم نے بھی
اس نار کی پیت کی آنچوں میں
اس دل کا تینا دیکھا ہے؟
کل ہم نے سپنا دیکھا ہے -
ہم گھوم چکے بستی بن میں
اک آس کی پھانس لیے من میں
کوئی ساجن ہو کوئی پیارا ہو
کوئی دیپک ہو، کوئی تارا ہو
جب جیون رات اندھیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو
جب ساون بادل چھائے ہوں
جب پھاگن پھول کھلائے ہوں
جب چندا روپ لٹاتا ہو
جب سورج دھوپ نہاتا ہو
یا شام نے بستی گھیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو
ہاں دل کا دامن پھیلا ہے
کیوں گوری کا دل میلا ہے
ہم کب تک پیت کے دھوکے میں
تم کب تک دور جھروکے میں
کب دید سے دل کو سیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو
کیا جھگڑا سود خسارے کا
یہ کاج نہیں بنجارے کا
سب سونا روپا لے جائے
سب دنیا، دنیا لے جائے
تم ایک مجھے بہتیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو -
Please subscribe to this podcast, thanks.
-
بہار آئی تو جیسے یک بار
لوٹ آئے ہیں پھر عدم سے
وہ خواب سارے شباب سارے
جو تیرے ہونٹوں پہ مر مٹے تھے
جو مٹ کے ہر بار پھر جئے تھے
نکھر گئے ہیں گلاب سارے
جو تیری یادوں سے مشکبو ہیں
جو تیرے عشاق کا لہو ہیں
ابل پڑے ہیں عذاب سارے
ملال احوال دوستاں بھی
خمار آغوش مہ وشاں بھی
غبار خاطر کے باب سارے
ترے ہمارے
سوال سارے جواب سارے
بہار آئی تو کھل گئے ہیں
نئے سرے سے حساب سارے